Header Ads Widget

گزرے جو اپنے یاروں کی صحبت میں چار دن

گزرے جو اپنے یاروں کی صحبت میں چار دن

اے جی جوش


گزرے جو اپنے یاروں کی صحبت میں چار دن

ایسا لگا بسر ہوئے جنت میں چار دن


عمر خضر کی اس کو تمنا کبھی نہ ہو

انسان جی سکے جو محبت میں چار دن


اے جان آرزو وہ قیامت سے کم نہ تھے

کاٹے ترے بغیر جو غربت میں چار دن


جب تک جیے نبھائیں گے ہم ان سے دوستی

اپنے رہے جو دوست مصیبت میں چار دن


پھر عمر بھر کبھی نہ سکوں پا سکا یہ دل

کٹنے تھے جو بھی کٹ گئے راحت میں چار دن


جو فقر میں سرور ہے شاہی میں وہ کہاں

ہم بھی رہے ہیں نشۂ دولت میں چار دن


اس آگ نے جلا کے یہ دل راکھ کر دیا

اٹھتے تھے جوشؔ شعلے جو وحشت میں چار دن



Post a Comment

0 Comments